3 days ago • Amjad Ali Hussaini

*ظلم کی ابتدا کرنے والا بڑا ظالم ہوتا ہے*
قاضی عمر بن ابی لیلی اپنے دورِ قضا کا ایک حیرت انگیز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی مجلسِ قضاء میں بیٹھا ہوا تھا، میرے پاس ایک بڑھیا اور ایک جوان عورت آئی، بڑھیا تو آتے ہی بولنے لگی، پھر وہ لڑکی بولی کہ اللہ تعالیٰ قاضی کو نیکی عطا فرمائے، اسے کہیے کہ یہ چپ ہو جائے، میں اپنی اور اس کی بات کروں گی، اگر میں کہیں بھی غلطی کروں تو یہ بڑھیا مجھے ٹوک دے۔ (قاضی نے بڑھیا کو خاموش کرایا)
پھر وہ لڑکی کہنے لگی کہ یہ بڑھیا عورت میری پھوپھی ہے، میرے والد مجھے ان کی نگرانی میں چھوڑ کر وفات پا گئے تھے، تو اس نے میری تربیت کی اور اچھی تربیت کی۔ جب میں جوان ہو گئی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ شادی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اور اس طرح ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تو اس نے میری شادی ایک زرگر (سنار) سے کر دی۔ وہ (سنار) اور میں گویا دونوں پھول تھے۔ وہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے علاوہ کوئی اور نہیں بنائی، اور میں بھی یہ سمجھتی تھی کہ ان کے علاوہ اللہ نے کوئی پیدا نہیں کیا۔ وہ روزانہ بازار جاتا اور کما کر شام کو گھر لوٹ آتا۔ میری پھوپھی نے جب ہم دونوں میں ایک دوسرے سے اتنا لگاؤ دیکھا تو حسد میں مبتلا ہو گئی۔ ایک دن اس نے اپنی بیٹی کو خوب بناؤ سنگھار کیا اور میرے شوہر کے آنے کے وقت اسے میرے پاس بھیجا۔ تو میرے شوہر کی جب اس پر نظر پڑی تو اس نے میری پھوپھی سے اس کا رشتہ مانگا۔ اس نے کہا کہ ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تو اپنی بیوی (یعنی تیرا کام) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دے دے۔ میرے شوہر نے کہا میں نے اس کا معاملہ تیرے سپرد کر دیا۔ تو پھوپھی نے کہا کہ میں نے اسے تین طلاق دے دی ہیں۔ اس کے بعد پھوپھی نے اپنی بیٹی کا نکاح اس زرگر کے ساتھ کر دیا اور وہ اس کے ساتھ بھی اسی طرح رہنے لگا، صبح جاتا اور شام کو لوٹ آتا۔

جب میری عدّت گزری تو میں نے اسے کہا: پھوپھی جان! اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کا گھر چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو جاؤں؟ تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ تو میں دوسری جگہ منتقل ہو گئی۔ میری پھوپھی کا شوہر کافی عرصے سے غائب تھا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے میرا بھی پوچھا کہ بھتیجی کہاں ہے؟ تو پھوپھی نے بتایا کہ اس کی شادی ہو گئی تھی، وہاں سے طلاق ہو گئی، اور وہ دوسری جگہ رہ رہی ہے۔ تو اس نے کہا کہ اس پر جو مصیبت گزری ہے ہمیں اس کی تسلی کے لیے جانا چاہئے۔ مجھے اس کے آنے کی اطلاع ملی تو میں نے خوب بناؤ سنگھار کیا اور اس کے سامنے آئی۔ اس نے مجھے سلام کیا اور میری اس مصیبت پر مجھے تسلی دی، اور پھر کہا کہ میری کچھ جوانی ابھی باقی ہے، اگر میں تجھ سے نکاح کر لوں تو تجھے اعتراض تو نہیں؟ میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں، لیکن پھوپھی کا معاملہ میرے سپرد کر دو۔ اس نے میرے سپرد کر دیا تو میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔

چنانچہ پھر وہ ایک مسافر کی طرح اپنا سامان لے کر میرے گھر منتقل ہو گیا۔ اس کے پاس چھ ہزار درہم بھی تھے۔ کچھ عرصہ وہ میرے ساتھ رہا اور بیمار ہو کر مر گیا۔

جب میری عدّت گزر گئی تو میرا پہلا شوہر آیا اور تعزیت کی۔ جب مجھے اس کے آنے کا معلوم ہوا تو میں نے خوب بناؤ سنگھار کیا، پھر اس کے سامنے آئی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے فلانی! تجھے معلوم ہے کہ مجھے دنیا میں تو سب سے زیادہ محبوب اور عزیز تھی، اور اب تو رجوع کرنا بھی ہمارے لیے حلال ہو گیا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، مگر میری پھوپھی کی بیٹی کا یعنی تمہاری بیوی کا معاملہ میرے ہاتھ میں دے دو۔ تو اس نے اس کا معاملہ میرے ہاتھ میں دے دیا۔ تو میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔

یہ سن کر بڑھیا اچھل پڑی اور فوراً بولی: اللہ تعالیٰ قاضی کو نیکی عطا فرمائے! میں نے تو اس کے ساتھ ایسا ایک ہی بار کیا تھا جبکہ اس نے دو بار کیا ہے۔ پھر قاضی عمر بن محمد ابی لیلی نے کہا: ایک کے بدلے ایک، اور ابتدا میں ظلم کرنے والا بڑا ظالم ہوتا ہے، چل اپنے گھر جا۔
(بحوالہ: مومنات کا قافلہ اور ان کا کردار)

حاصل:
سچ ہے! جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اسی میں گرتا ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ظلم سے ہمیشہ پرہیز کرے، اور اس واقعہ سے عبرت پکڑے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔